جمعہ، 1 اپریل، 2016

گلشنِ اقبال


"کرن بیٹے ہاتھ پکڑ لیں، رش میں کہیں میں کھو نہ جاؤں" میں نے اپنی چھ سالہ بیٹی کو آواز دی۔ "نہیں بابا میں آپ کو کھونے نہیں دوں گی، آپ بس میرے پیچھے پیچھے آتے جائیں ناں" کافی عرصے بعد ہم سیر کو نکلے تھے۔
پچھلے ڈیڑھ ماہ سے آفس کے کام سے پہلے شمالی سندھ اور پھر میانوالی میں مصروف رہا تھا، واپس آیا تو کرن کو بھی سکول سے چھٹیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ابھی پچھلے برس ہی تو انتہائی تگ و دو کے بعد کرن کا کمپری ہینسو سکول میں داخلہ کروایا تھا۔ سارہ کی خواہش تھی کہ گرامر سکول میں داخلہ ہو مگر میرے حالات اجازت نہیں دے رہے تھے۔ خیر کمپری ہینسو سکول بھی ایک اچھی شہرت کا ادارہ تھا اورمناسب فیس کے علاوہ میرے آفس کے رستے میں ہی تھا۔
میں ایک نیم سرکاری ادارے میں اکاؤنٹنٹ ہوں، ابو بھی محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہیں۔ آمدن تو اتنی نہ تھی مگر میرے والدین نے مجھے  بی کام کرانے کے ساتھ ساتھ اقبال ٹاؤن کے خیبر بلاک میں 5 مرلے کا مکان بنا ہی لیا تھا۔ ابو نے ہی ایک دوست کی وساطت سے مجھے نوکری دلوا دی تھی اور 2 سال بعد امی کو ایک شادی کی تقریب میں سارہ پسند آ گئی تھی۔ ہمارا گھر چھوٹا ہے مگر اس میں ہم پانچوں سکون سے رہ رہے تھے۔ سارہ بھی گھر میں ٹیوشنز پڑھاتی ہے تو گزارا چل ہی رہا تھا۔ کبھی کبھی میری بہن شمع پنڈی سے آ جاتی تو ہمارے گھر کی رونق مزید بڑھ جاتی ۔ بہرحال زندگی کی روٹین سے میں کسی قدر مطمئن تھا، صبح بائیک پر کرن کو سکول ڈراپ کرتا اور گارڈن ٹاؤن میں واقع آفس وقت پر پہنچ جاتا۔ واپسی کے لیے رکشہ لگوا رکھا تھا۔ رکشے والا محلے دار ہی تھا تو اس کی طرف سے اطمنیان تھا۔
آج کے دن کا سیر کا وعدہ بھی تھا اور موسم بھی پرفیکٹ تھا تو شام کوہم تینوں بائیک پرگلشنِ اقبال چلے آئے۔ بائیک پارکنگ میں لگا کر ہم اندر داخل ہوئے تو شدید رش تھا۔ کرن  فوری طور پر جھولوں کی ضد کرنے لگی مگر میں نے کہا کہ پہلے ہم گھوم لیں اس کے بعد سارے جھولوں میں بٹھاؤں گا۔
 علامہ اقبال ٹاؤن کے تقریباً وسط میں واقع یہ وسیع و عریض پارک میرے ساتھ ہی پیدا ہوا  اور پلا بڑھا تھا۔ ابو مجھے اور شمع کو بھی اکثر یہاں لایا کرتے تھے، اور ہم اس کے لش گرین سبزہ  زاروں میں بھاگتے، دوڑتے اچھلتے کھیلتے گاتے ہنستے بڑے ہوتے رہے۔ اس پارک میں روش عام اینٹوں کی نہیں بلکہ خرگوش، ہاتھی، مینڈک وغیرہ کی شکل کے سیمنٹ بلاکس سے بنائی گئی تھیں۔ میں نے کرن کی توجہ اسطرف دلائی تو کافی دیر تک وہ انہی کو دیکھتی رہی۔ ایک جانب وہ خالی حصہ تھا جہاں کبھی بھول بھلیاں بنائی گئی تھیں۔ اس کے دروازوں کے نام اندرون لاہور کے مشہور دروازوں پر رکھے گئے تھے۔
آگے دائیں طرف وہ ہاتھی کی صورت میں بنی سلائیڈ آ گئی جو میری اور شمع کے بچپن کی ساتھی تھی۔ کرن میرا ہاتھ چھڑا کر بھاگتی ہوئی ان بچوں میں گم ہو گئی جو سلائیڈ لینے کو پچھلے جانب سے سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے۔وہ سلائیڈ لیتی رہی، میں تصویریں بناتا رہا۔پھر اسے زبردستی کھینچ کھانچ کر آگے بڑھے۔ بائیں جانب دور سے آبشار نظر آئی تو قدم خود بخود ادھر کو اٹھ گئے۔ یہ کوئی بہت اونچی آبشار نہیں مگر ہمارے بچپن میں یہ انوکھی چیز ہی تھی، میں اس کے گیلے پتھروں سے گر کر 2 بار زخمی بھی ہوا مگر اس کا سحر آج بھی ویسا ہی تھا۔سارہ اور کرن کو آبشار کے اندرونی حصے میں بھیج کر باہر سے ان کی تصویریں بنائیں۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں پچیس  سال پیچھے پہنچ گیا ہوں، سب کچھ ویسا ہی تھا، بس رش تھوڑا بڑھ گیا تھا۔
کرن کو دور سے جھیل نظر آئی تو وہ اس کی طرف بھاگنے لگی۔ یہاں رش نسبتاً کم تھا اس لیے میں نے بھی اس کو جانے دیا اور سارہ کے ساتھ خراماں خراماں پیچھے چل پڑا۔ دائیں جانب سکیٹنگ رنگ کو دیکھ کر سارہ کو اپنے پہلے سکیٹس کی ابو سے فرمائش کا قصہ بتایا۔ یہ مجھے آج تک معلوم نہیں کہ ابو نےکم آمدنی کے باوجود سکیٹس خریدے کیسے، بہرحال ساتویں جماعت میں اول پوزیشن پر یہی تحفہ ملا تھا۔اور میں پھر صرف سکیٹس کی خاطر ہر جمعے کو یہاں آتا تھا۔ کرن کو دیکھا تو گھاس والی ڈھلوان پر لوٹنیاں لگارہی تھی،  --- وہی میری اور شمع کی طرح--- شاید گلشن اقبال آنے والے سبھی بچوں کی طرح۔
جھیل میں بطخیں اسی طرح براجمان تھیں جیسے پچیس  سال قبل---  کرن کی 2 بطخوں کے درمیان تصویر اتارنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ یہ وہی جھیل ہے جہاں پہلی بار ابو کے ساتھ میں اور شمع پیڈل والی کشتی میں بیٹھے تھے۔آج کشتیاں موجود نہ تھی تو دل میں ایک کسک سی ہوئی۔ خیرواپس مڑے اور کون آئس کریم کے مزے اڑاتےکونے میں واقع اونچی سلائیڈ پر آ گئےجسے  شمع ہمیشہ مینارِ پاکستان کہتی تھی ۔اس میں سلائیڈز کے دو درجے ہیں۔ کرن نچلے درجے سے تو بھاگتے دوڑتے سلائیڈ کر رہی تھی مگر اوپر جانے سے ڈر رہی تھی۔ میں خود ساتھ لے کر گیا اور بل کھاتی سلائیڈ پر کرن کے پیچھے بیٹھ کر پھسلتا ہوا نیچے آیا۔ سارہ تصویر بنا رہی تھی اور کرن اسے دیکھ کر خوشی سے چیخیں مار رہی تھی۔میں نے اسے دوبارہ اوپر جانے کوکہا مگر وہ نچلی سلائیڈ سےہی واپس آ گئی اور جھولوں کی ضد کرنے لگی۔
ہم ٹرین کے پاس پہنچے رش بہت تھا مگر کرن اور سارہ کا ٹکٹ لے کر انہیں بٹھا ہی دیا۔ ٹرین چلی تو میں بھی ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے دونوں کی تصویریں بنانے لگا، دوسرے بچے بھی اپنے والدین کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے، دل تو کیا کہ ہر بار کی طرح آج بھی وہی دس بارہ سال کا بن جاؤں اور خود بھی ٹرین پر سوار ہو جاؤں، کرن بھی آوازیں دے رہی تھی کہ بابا آ جائیں۔ مگر میں نے سوچا کہ ڈاجم کارز کا ٹکٹ پہلے لے لوں تاکہ لمبی لائن میں کچھ وقت بچا لوں۔ سارہ کو اشارہ کر کےمیں ٹکٹ بوتھ پر آ گیا۔
جونہی ٹکٹ لے کر مڑا، ایک زور دار آواز آئی اور میرے کان بند ہو گئے مگرمیری آنکھیں آگ، دھواں، اچھلتے جسم اور خون دیکھنے لگیں۔یوں لگ رہا تھا کسی میدانِ جنگ والی فلم کو میوٹ کر دیا گیا ہو۔ہاں مانتا ہوں کہ دو سیکنڈ یا اس سے کم عرصے کو میں اپنی بیوی اور بیٹی کو بھول گیا، اس عرصے میں میں صرف اس قیامت کاشاہد تھا جو میرے چاروں اطراف بکھری پڑی تھی۔ معلوم نہیں کس کی چیخ تھی جس نے مجھے سماعت بھی لوٹائی اور سارہ اور کرن کا دھیان بھی۔مگر اب میری آنکھیں کچھ اور نہیں دیکھ پارہی تھیں، صرف الٹی ہوئی ٹرین ہی ایک منظر تھا جو میرے سامنے تھا۔
بچوں کی چیخ و پکارسےدرخت لرز رہے تھے اور والدین کی چیخ و پکار سے زمین دہل رہی تھی۔ سارہ ایک تختے کے نیچے بیہوش ملی۔ اسے جھنجوڑا  تو ہوش میں آ گئی اور فوراً کرن کو پکارنے لگی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگرسوائے موت وحشت اور کرب کے کچھ نظر نہ آیا۔ سارہ کی ٹانگ میں فریکچر ہو گیا تھا، ماتھے پررِستا زخم بھی تھا مگر گہرا نہ  تھا، اس نے مجھے دھکے دے کر کرن کو ڈھونڈنے کو کہا اور میں پاگلوں کی طرح ملبے، دھوئیں، خون، گوشت کے لوتھڑوں کے درمیان اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے لگ گیا۔ مل تو وہ گئی مگر بیہوش۔ اس کا بایاں بازو کہنی سے لٹک رہا تھاجبکہ دائیں کندھےمیں بھی ایک سوراخ تھا۔ میں جیسے تیسے اسے سمیٹ کر گیٹ کی طرف بھاگ اٹھا۔
 ہر کوئی بھاگ رہا تھا، ہر وہ شخص جس کی ٹانگیں اور حواس سلامت تھے، بھاگ رہا تھا، کوئی اپنی جان بچانے کو باہر کی جانب کوئی اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے اندر کی جانب۔ خبر نہیں کیسے باہر نکلا اور کیسے ایک رکشے میں گھس کر جناح ہسپتال جانے کا کہا۔مسلسل کرن کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کریم بلاک مارکیٹ پہنچنے پر سارہ کا خیال آیا مگر سوچا وہ شدید زخمی نہیں ہےکم ا ز کم فوری خطرے میں نہیں۔میرا موبائل بھی کہیں گر چکا تھا ۔ رکشے والےسےموبائل لےکرابوکوفون کیا اورصورتحال بتاکرانہیں سارہ کےپاس پہنچنےکی تاکید کی۔
جناح ہسپتال پر پہلےہی ایمبولینسوں اور رکشوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔یہاں بھی ہر طرف چیخ و پکار ہی مچی ہوئی تھی۔ کرن کو ایمرجنسی کا سٹاف فوراً آپریشن تھیٹر میں لے گیا۔ میں سٹریچر پر آنے والی  زندہ اور مردہ لاشوں کودیکھنے لگا۔ جب ایک سٹریچر پر دو چھوٹی لاشیں آئیں تو میری بھی چیخ نکل گئی ۔ یہاں بھی ہر کسی کے اوسان خطا تھے، اس لیے کوئی بھی موبائل دینےپر راضی نہ ہوا کہ ابو کو فون ہی کر لیتا۔
آپریشن تھیٹر سے وہی میل نرس باہر آیا جو کرن کو لے کر گیا تھا اس نےفوراً خون کا مطالبہ کیا۔ مجھے معلوم تھا کرن کا گروپ اے  نیگٹو ہےمگر میرا گروپ بی پازیٹو ہے۔ میل نرس نے مجھےبلڈ بینک جانے کو کہا۔
وہاں بھی رش لگ چکا تھا۔ میں دیوانہ وار اے نیگٹو اے نیگٹو چلانے لگا۔ مگر شاید وہاں زیادہ خون کے طلبگار ہی تھے، ڈونر کم تھے۔ کھڑکی تک بمشکل پہنچا ہی تھا تو ایک نوجوان نے پوچھا  "آپ کو اےنیگٹو خون چاہیے؟" میں نے ہذیانی انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر ہاں ہاں کہا تو اس نے فوراً خون دینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ میں نے بلڈ بینک کے کلرک کو بتایا تو اس نے ہم دونوں کو اندر بلا لیا۔ نرس نے اپنا پروسیجر شروع کیا، اسی اثنا میں کلرک نے کاغذی کاروائی کے لیے پوچھا"مریض کانام؟"
میں نے کہا "کرن --- کرن سلیم"
اس نےرجسٹر میں لکھتے ہوئے   پوچھا "عمر؟"
میں نے کہا "چھ سال"
اس نے پوچھا "مریض کے والد کا نام"
میں نے کہا "جوزف سلیم بھٹی"
 ڈونر نوجوان چونک کر بولا" آپ کرسچئین ہیں؟ "
اس ایک سیکنڈ میں مجھ پر ہزار صدیاں بیت گئیں ---- گنگ زبان اور بند ہوتے دل کےساتھ اثبات میں سر ہلایا تووہ بولا "آپ فکر نہ کریں، آپ کی بچی میری بچی ہے"
قصہ طویل ہو گیا، بس یہی کہنا ہے کہ کوئی اقبال کے گلشن کو اجاڑنےآیا تھا تو جناح کے ہسپتال میں خونِ دل دے کر امید کی کرن بچانے والے بھی موجود تھے۔


پسِ تحریر: قارئین سے درخواست ہے کہ عطیہء خون کو مذہب و نسل سے بڑھ کر انسانیت کے لیے صدقہء جاریہ سمجھیں۔ ہر سال ایک دو مرتبہ اس مہم میں حصہ لیں۔

17 تبصرے:

  1. منفی سوچ والوں کے لیے بہت گہرا سبق ہے عُمدہ تحریر, جیسے اسلاموفوبیا نے مغربی ممالک کو دبوچ لیا ہے ایسے ہی ہم نے بھی سٹیریو ٹائپس بنا لی ہیں, جزاکءاللہ لکھتے رہیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. تبصرے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ آپ کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. شاندار تحریر، ایسے دلخراش واقعے کے تناظر میں امید و بیم کی سولی پر لٹکے ہوئے شخص کی کیفیات آپ نے کیسی عمدگی سے بیان کیں، جہاں تک قاری کی حیثیت سے احساسات کی بات ہے تو سچ یہ ہے کہ میرے پاس اظہار کیلئے مناسب الفاظ کم پڑگئے ہیں، نہایت اعلٰی کاوش

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اس پارک سے جڑی یادیں مجھ پر قرض تھیں، افسوس یہ ہے کہ اس کا احساس تبھی ہو پایا جب یہ سانحہ گزر گیا

      حذف کریں
  4. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. کیفیت ایسی ہے کہ واہ کی بجائے آہ والا معاملہ ہے
    اللہ آپ کو لکھتے رہنے کی توفیق دے
    آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. اس موضوع پر بلاگ لھکنا بھی ہمت والی بات ہے میرے پاس تو کمنٹ کرنے کیلئے بھی الفاظ نہیں ہیں
    اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو لکتے رہنے کی ہمت دے
    جزاکاللہ
    عبدالخالق
    @Sabkhaliq

    جواب دیںحذف کریں
  7. آپ کرسچئن ہیں؟ اسی لائن پہ دل تھم گیا تھا، اتنی مایوسی طاری ہو چکی کہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ڈونر خون نہیں دے گا.. مگر واقعی ہر ہاتھ گلشن کو اجاڑنے کے ہی لیے نہیں بڑھتا..

    جواب دیںحذف کریں
  8. آپ کرسچئن ہیں؟ اسی لائن پہ دل تھم گیا تھا، اتنی مایوسی طاری ہو چکی کہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ڈونر خون نہیں دے گا.. مگر واقعی ہر ہاتھ گلشن کو اجاڑنے کے ہی لیے نہیں بڑھتا..

    جواب دیںحذف کریں
  9. آپ کرسچئن ہیں؟ اسی لائن پہ دل تھم گیا تھا، اتنی مایوسی طاری ہو چکی کہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ڈونر خون نہیں دے گا.. مگر واقعی ہر ہاتھ گلشن کو اجاڑنے کے ہی لیے نہیں بڑھتا..

    جواب دیںحذف کریں