جمعہ، 1 اپریل، 2016

گلشنِ اقبال


"کرن بیٹے ہاتھ پکڑ لیں، رش میں کہیں میں کھو نہ جاؤں" میں نے اپنی چھ سالہ بیٹی کو آواز دی۔ "نہیں بابا میں آپ کو کھونے نہیں دوں گی، آپ بس میرے پیچھے پیچھے آتے جائیں ناں" کافی عرصے بعد ہم سیر کو نکلے تھے۔
پچھلے ڈیڑھ ماہ سے آفس کے کام سے پہلے شمالی سندھ اور پھر میانوالی میں مصروف رہا تھا، واپس آیا تو کرن کو بھی سکول سے چھٹیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ابھی پچھلے برس ہی تو انتہائی تگ و دو کے بعد کرن کا کمپری ہینسو سکول میں داخلہ کروایا تھا۔ سارہ کی خواہش تھی کہ گرامر سکول میں داخلہ ہو مگر میرے حالات اجازت نہیں دے رہے تھے۔ خیر کمپری ہینسو سکول بھی ایک اچھی شہرت کا ادارہ تھا اورمناسب فیس کے علاوہ میرے آفس کے رستے میں ہی تھا۔
میں ایک نیم سرکاری ادارے میں اکاؤنٹنٹ ہوں، ابو بھی محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہیں۔ آمدن تو اتنی نہ تھی مگر میرے والدین نے مجھے  بی کام کرانے کے ساتھ ساتھ اقبال ٹاؤن کے خیبر بلاک میں 5 مرلے کا مکان بنا ہی لیا تھا۔ ابو نے ہی ایک دوست کی وساطت سے مجھے نوکری دلوا دی تھی اور 2 سال بعد امی کو ایک شادی کی تقریب میں سارہ پسند آ گئی تھی۔ ہمارا گھر چھوٹا ہے مگر اس میں ہم پانچوں سکون سے رہ رہے تھے۔ سارہ بھی گھر میں ٹیوشنز پڑھاتی ہے تو گزارا چل ہی رہا تھا۔ کبھی کبھی میری بہن شمع پنڈی سے آ جاتی تو ہمارے گھر کی رونق مزید بڑھ جاتی ۔ بہرحال زندگی کی روٹین سے میں کسی قدر مطمئن تھا، صبح بائیک پر کرن کو سکول ڈراپ کرتا اور گارڈن ٹاؤن میں واقع آفس وقت پر پہنچ جاتا۔ واپسی کے لیے رکشہ لگوا رکھا تھا۔ رکشے والا محلے دار ہی تھا تو اس کی طرف سے اطمنیان تھا۔
آج کے دن کا سیر کا وعدہ بھی تھا اور موسم بھی پرفیکٹ تھا تو شام کوہم تینوں بائیک پرگلشنِ اقبال چلے آئے۔ بائیک پارکنگ میں لگا کر ہم اندر داخل ہوئے تو شدید رش تھا۔ کرن  فوری طور پر جھولوں کی ضد کرنے لگی مگر میں نے کہا کہ پہلے ہم گھوم لیں اس کے بعد سارے جھولوں میں بٹھاؤں گا۔
 علامہ اقبال ٹاؤن کے تقریباً وسط میں واقع یہ وسیع و عریض پارک میرے ساتھ ہی پیدا ہوا  اور پلا بڑھا تھا۔ ابو مجھے اور شمع کو بھی اکثر یہاں لایا کرتے تھے، اور ہم اس کے لش گرین سبزہ  زاروں میں بھاگتے، دوڑتے اچھلتے کھیلتے گاتے ہنستے بڑے ہوتے رہے۔ اس پارک میں روش عام اینٹوں کی نہیں بلکہ خرگوش، ہاتھی، مینڈک وغیرہ کی شکل کے سیمنٹ بلاکس سے بنائی گئی تھیں۔ میں نے کرن کی توجہ اسطرف دلائی تو کافی دیر تک وہ انہی کو دیکھتی رہی۔ ایک جانب وہ خالی حصہ تھا جہاں کبھی بھول بھلیاں بنائی گئی تھیں۔ اس کے دروازوں کے نام اندرون لاہور کے مشہور دروازوں پر رکھے گئے تھے۔
آگے دائیں طرف وہ ہاتھی کی صورت میں بنی سلائیڈ آ گئی جو میری اور شمع کے بچپن کی ساتھی تھی۔ کرن میرا ہاتھ چھڑا کر بھاگتی ہوئی ان بچوں میں گم ہو گئی جو سلائیڈ لینے کو پچھلے جانب سے سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے۔وہ سلائیڈ لیتی رہی، میں تصویریں بناتا رہا۔پھر اسے زبردستی کھینچ کھانچ کر آگے بڑھے۔ بائیں جانب دور سے آبشار نظر آئی تو قدم خود بخود ادھر کو اٹھ گئے۔ یہ کوئی بہت اونچی آبشار نہیں مگر ہمارے بچپن میں یہ انوکھی چیز ہی تھی، میں اس کے گیلے پتھروں سے گر کر 2 بار زخمی بھی ہوا مگر اس کا سحر آج بھی ویسا ہی تھا۔سارہ اور کرن کو آبشار کے اندرونی حصے میں بھیج کر باہر سے ان کی تصویریں بنائیں۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں پچیس  سال پیچھے پہنچ گیا ہوں، سب کچھ ویسا ہی تھا، بس رش تھوڑا بڑھ گیا تھا۔
کرن کو دور سے جھیل نظر آئی تو وہ اس کی طرف بھاگنے لگی۔ یہاں رش نسبتاً کم تھا اس لیے میں نے بھی اس کو جانے دیا اور سارہ کے ساتھ خراماں خراماں پیچھے چل پڑا۔ دائیں جانب سکیٹنگ رنگ کو دیکھ کر سارہ کو اپنے پہلے سکیٹس کی ابو سے فرمائش کا قصہ بتایا۔ یہ مجھے آج تک معلوم نہیں کہ ابو نےکم آمدنی کے باوجود سکیٹس خریدے کیسے، بہرحال ساتویں جماعت میں اول پوزیشن پر یہی تحفہ ملا تھا۔اور میں پھر صرف سکیٹس کی خاطر ہر جمعے کو یہاں آتا تھا۔ کرن کو دیکھا تو گھاس والی ڈھلوان پر لوٹنیاں لگارہی تھی،  --- وہی میری اور شمع کی طرح--- شاید گلشن اقبال آنے والے سبھی بچوں کی طرح۔
جھیل میں بطخیں اسی طرح براجمان تھیں جیسے پچیس  سال قبل---  کرن کی 2 بطخوں کے درمیان تصویر اتارنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ یہ وہی جھیل ہے جہاں پہلی بار ابو کے ساتھ میں اور شمع پیڈل والی کشتی میں بیٹھے تھے۔آج کشتیاں موجود نہ تھی تو دل میں ایک کسک سی ہوئی۔ خیرواپس مڑے اور کون آئس کریم کے مزے اڑاتےکونے میں واقع اونچی سلائیڈ پر آ گئےجسے  شمع ہمیشہ مینارِ پاکستان کہتی تھی ۔اس میں سلائیڈز کے دو درجے ہیں۔ کرن نچلے درجے سے تو بھاگتے دوڑتے سلائیڈ کر رہی تھی مگر اوپر جانے سے ڈر رہی تھی۔ میں خود ساتھ لے کر گیا اور بل کھاتی سلائیڈ پر کرن کے پیچھے بیٹھ کر پھسلتا ہوا نیچے آیا۔ سارہ تصویر بنا رہی تھی اور کرن اسے دیکھ کر خوشی سے چیخیں مار رہی تھی۔میں نے اسے دوبارہ اوپر جانے کوکہا مگر وہ نچلی سلائیڈ سےہی واپس آ گئی اور جھولوں کی ضد کرنے لگی۔
ہم ٹرین کے پاس پہنچے رش بہت تھا مگر کرن اور سارہ کا ٹکٹ لے کر انہیں بٹھا ہی دیا۔ ٹرین چلی تو میں بھی ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے دونوں کی تصویریں بنانے لگا، دوسرے بچے بھی اپنے والدین کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے، دل تو کیا کہ ہر بار کی طرح آج بھی وہی دس بارہ سال کا بن جاؤں اور خود بھی ٹرین پر سوار ہو جاؤں، کرن بھی آوازیں دے رہی تھی کہ بابا آ جائیں۔ مگر میں نے سوچا کہ ڈاجم کارز کا ٹکٹ پہلے لے لوں تاکہ لمبی لائن میں کچھ وقت بچا لوں۔ سارہ کو اشارہ کر کےمیں ٹکٹ بوتھ پر آ گیا۔
جونہی ٹکٹ لے کر مڑا، ایک زور دار آواز آئی اور میرے کان بند ہو گئے مگرمیری آنکھیں آگ، دھواں، اچھلتے جسم اور خون دیکھنے لگیں۔یوں لگ رہا تھا کسی میدانِ جنگ والی فلم کو میوٹ کر دیا گیا ہو۔ہاں مانتا ہوں کہ دو سیکنڈ یا اس سے کم عرصے کو میں اپنی بیوی اور بیٹی کو بھول گیا، اس عرصے میں میں صرف اس قیامت کاشاہد تھا جو میرے چاروں اطراف بکھری پڑی تھی۔ معلوم نہیں کس کی چیخ تھی جس نے مجھے سماعت بھی لوٹائی اور سارہ اور کرن کا دھیان بھی۔مگر اب میری آنکھیں کچھ اور نہیں دیکھ پارہی تھیں، صرف الٹی ہوئی ٹرین ہی ایک منظر تھا جو میرے سامنے تھا۔
بچوں کی چیخ و پکارسےدرخت لرز رہے تھے اور والدین کی چیخ و پکار سے زمین دہل رہی تھی۔ سارہ ایک تختے کے نیچے بیہوش ملی۔ اسے جھنجوڑا  تو ہوش میں آ گئی اور فوراً کرن کو پکارنے لگی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگرسوائے موت وحشت اور کرب کے کچھ نظر نہ آیا۔ سارہ کی ٹانگ میں فریکچر ہو گیا تھا، ماتھے پررِستا زخم بھی تھا مگر گہرا نہ  تھا، اس نے مجھے دھکے دے کر کرن کو ڈھونڈنے کو کہا اور میں پاگلوں کی طرح ملبے، دھوئیں، خون، گوشت کے لوتھڑوں کے درمیان اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے لگ گیا۔ مل تو وہ گئی مگر بیہوش۔ اس کا بایاں بازو کہنی سے لٹک رہا تھاجبکہ دائیں کندھےمیں بھی ایک سوراخ تھا۔ میں جیسے تیسے اسے سمیٹ کر گیٹ کی طرف بھاگ اٹھا۔
 ہر کوئی بھاگ رہا تھا، ہر وہ شخص جس کی ٹانگیں اور حواس سلامت تھے، بھاگ رہا تھا، کوئی اپنی جان بچانے کو باہر کی جانب کوئی اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے اندر کی جانب۔ خبر نہیں کیسے باہر نکلا اور کیسے ایک رکشے میں گھس کر جناح ہسپتال جانے کا کہا۔مسلسل کرن کو جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کریم بلاک مارکیٹ پہنچنے پر سارہ کا خیال آیا مگر سوچا وہ شدید زخمی نہیں ہےکم ا ز کم فوری خطرے میں نہیں۔میرا موبائل بھی کہیں گر چکا تھا ۔ رکشے والےسےموبائل لےکرابوکوفون کیا اورصورتحال بتاکرانہیں سارہ کےپاس پہنچنےکی تاکید کی۔
جناح ہسپتال پر پہلےہی ایمبولینسوں اور رکشوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔یہاں بھی ہر طرف چیخ و پکار ہی مچی ہوئی تھی۔ کرن کو ایمرجنسی کا سٹاف فوراً آپریشن تھیٹر میں لے گیا۔ میں سٹریچر پر آنے والی  زندہ اور مردہ لاشوں کودیکھنے لگا۔ جب ایک سٹریچر پر دو چھوٹی لاشیں آئیں تو میری بھی چیخ نکل گئی ۔ یہاں بھی ہر کسی کے اوسان خطا تھے، اس لیے کوئی بھی موبائل دینےپر راضی نہ ہوا کہ ابو کو فون ہی کر لیتا۔
آپریشن تھیٹر سے وہی میل نرس باہر آیا جو کرن کو لے کر گیا تھا اس نےفوراً خون کا مطالبہ کیا۔ مجھے معلوم تھا کرن کا گروپ اے  نیگٹو ہےمگر میرا گروپ بی پازیٹو ہے۔ میل نرس نے مجھےبلڈ بینک جانے کو کہا۔
وہاں بھی رش لگ چکا تھا۔ میں دیوانہ وار اے نیگٹو اے نیگٹو چلانے لگا۔ مگر شاید وہاں زیادہ خون کے طلبگار ہی تھے، ڈونر کم تھے۔ کھڑکی تک بمشکل پہنچا ہی تھا تو ایک نوجوان نے پوچھا  "آپ کو اےنیگٹو خون چاہیے؟" میں نے ہذیانی انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر ہاں ہاں کہا تو اس نے فوراً خون دینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ میں نے بلڈ بینک کے کلرک کو بتایا تو اس نے ہم دونوں کو اندر بلا لیا۔ نرس نے اپنا پروسیجر شروع کیا، اسی اثنا میں کلرک نے کاغذی کاروائی کے لیے پوچھا"مریض کانام؟"
میں نے کہا "کرن --- کرن سلیم"
اس نےرجسٹر میں لکھتے ہوئے   پوچھا "عمر؟"
میں نے کہا "چھ سال"
اس نے پوچھا "مریض کے والد کا نام"
میں نے کہا "جوزف سلیم بھٹی"
 ڈونر نوجوان چونک کر بولا" آپ کرسچئین ہیں؟ "
اس ایک سیکنڈ میں مجھ پر ہزار صدیاں بیت گئیں ---- گنگ زبان اور بند ہوتے دل کےساتھ اثبات میں سر ہلایا تووہ بولا "آپ فکر نہ کریں، آپ کی بچی میری بچی ہے"
قصہ طویل ہو گیا، بس یہی کہنا ہے کہ کوئی اقبال کے گلشن کو اجاڑنےآیا تھا تو جناح کے ہسپتال میں خونِ دل دے کر امید کی کرن بچانے والے بھی موجود تھے۔


پسِ تحریر: قارئین سے درخواست ہے کہ عطیہء خون کو مذہب و نسل سے بڑھ کر انسانیت کے لیے صدقہء جاریہ سمجھیں۔ ہر سال ایک دو مرتبہ اس مہم میں حصہ لیں۔

پیر، 21 مارچ، 2016

کھرا جھوٹ

سفر شروع ہوا تو کچھ دیر تو میں دائیں جانب نظریں جمائے لاہور کی رونق بھری سڑکوں اور عمارتوں کو دیکھتا رہا۔ ونڈو سیٹ پر بیٹھا نوجوان فون پر محوِ گفتگو تھا تو اسے میرا یوں  منہ موڑے رہنا برا بھی نہ لگ رہا ہو گا۔ خیر مجھے پروا بھی نہ تھی۔ بس کینال روڈ پر آئی تو میں نے آنکھیں موند لیں، تین دن کے دفتری کام کے بہانے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد اب ڈائیوو کے ذریعے واپس اسلام آباد جا رہا تھا۔ عام طور پر بیگم کے ہمراہ گاڑی پر ہی آنا جانا ہوتا تھا مگر اس بار بوجوہ بس سے سفر کر رہا تھا۔
راوی ٹول پلازہ کے قریب بیگم کا فون آیا تو پنڈی ٹرمینل پر آمد کا وقت بتا کر ایک نگاہ ادھر ادھر دوڑائی۔ ساتھ والی سیٹوں پر ایک دبلا پتلا شخص اپنے دو بیٹوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بچوں کی عمروں کو دیکھ کر ایک لمحے کو خیال سا آیا کہ یہ دونوں ایک سیٹ پر کیسے ایڈجسٹ کر رہے ہیں، مگر اس پر غور سے قبل ہی ان سے آگے بیٹھے افراد نے میری توجہ مبذول کرا لی۔ وہ دو کاروباری تھے جو شاید کسی وزیر سے ملنے اسلام آباد جا رہے تھے اور اونچی آواز میں فون پر مختلف افراد سے بات کرتے ہوئے اپنے پروگرام سے آگاہ کر رہے تھے۔  میں نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں، ساتھ بیٹھا نوجوان اپنی گرل فرینڈ کو منا کر پر سکون ہو چکا تھا اس لیے میری بھی آنکھ لگ گئی۔
"میں تینوں دوجی واری نئیں کہنا----" گرجدار آواز میں یہ وہ جملہ تھا جس سے میری آنکھ کھلی۔ کاروباری افراد میں سے ایک بچوں کے والد سے مخاطب تھا اور تحکمانہ انداز میں کسی بات کا رعب جما رہا تھا۔ بچوں کا والد تقریباً منمناتے ہوئے "ٹھیک اے جناب------  ہن نئیں کردے ------- تسی سکون کرو" کی مختصر گردان کے بعد اپنے بچوں کو خاموش الفاظ سے ڈانٹنا شروع ہو گیا۔ میرا ہم نشین نوجوان واٹس ایپ میں مگن تھا، میں نے لیپ ٹاپ نکال کر اپنے دورے کی رپورٹ کے پوائنٹس لکھنے شروع کر دیے۔
ساتھ والی سیٹوں سے بچوں کی سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ موٹروے پر پہلی بار سفر کر رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان کا ہر چیز میں ایکسائٹڈ ہونا ایک فطری امر تھا۔ ان کا باپ سو رہا تھا یا آنکھیں بند کیے تھا، مجھے خبر تھی نہ پرواہ۔ مگر بچوں کی ہر نئی شے کو دیکھ کر "اوئے اے نہر ویکھ ------ اوئے اسلام آباد ہجے 210 کلومیٹر رہندا جے ---------- اوئے روڈ دے نال نال جالی چلدی جا رئی اے" جیسی باتیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ایک بار شاید انہوں نے باپ سے قیام و طعام کا مطلب بھی پوچھا مگر جواب نہ ملنے پر پھر سے باہر مگن ہو گئے۔
معلوم نہیں کیا ہوا مگر اگلی سیٹوں پر یکدم ہلچل مچی اور کاروباری افراد میں ایک موٹے شخص نے یکدم کھڑا ہو کر بچوں کے والد کو کندھے سے پکڑ کر دھمکانا شروع کر دیا۔ "اوئے تینوں کہیا سی ایناں نوں باز رکھ، توں فیر ایناں حرام دیاں نوں نئیں ڈکیا-------- پورا سفر حرام کر دتا اے دھکے مار مار کے"۔ بچوں کا والد جو اب واضح طور پر ایک زیریں متوسط طبقے کا آدمی لگ رہا تھا صرف یہی کہہ پا رہا تھا "بچے نیں جی---------- جان دیو----- میں سمجھا لاں گا------- تسی سکون کرو۔------ ہن نئیں کردے"۔ مگر موٹے کاروباری کا ہر لفظ کے ساتھ پارہ بلند ہو رہا تھا۔ بس ہوسٹس کو بھی مداخلت سے منع کر کے اس نے یک دم بچوں کے والد کو گندی گالی دے کر کہا"جے وکھری سیٹاں دے پیہے نئیں ہوندے تے ناں آیا کرو ڈیوو تے ٭٭٭-----  لے جا ایناں ٭٭٭٭ نوں لاری اڈے ------ اوتھے پاویں اک سیٹ تے چھ بٹھا لے ٭٭٭ دیا---- ٭٭٭ ساڈا سفر کیوں حرام کر رہیا ایں کسے ٭٭٭ دیا بچیا------"
میری طرح بس کا ہر مسافر اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ میری اگلی سیٹ پر بیٹھے بزرگ نے موٹے کاروباری شخص کو بازو سے پکڑ کر "جاندی کرو یار، برداشت کرو، رہن دیو بس بہہ وی جاؤ"  کے رسمی الفاظ کے ساتھ مداخلت کی اور کامیاب رہے۔ موٹا کاروباری خشمگیں نگاہوں سے بچوں اور انکے والد کو گھورتے ہوئے سیٹ پر بیٹھا اور بس ہوسٹس کو پانی کا آرڈر کر کے اپنے ہمسفر کو کاروائی کی تفصیل بتانے لگ گیا۔
بچوں کا باپ اگلی نشست سے آتی مغلظات پر دانت پیسنے اور اپنے بچوں کو اشاروں اور آنکھوں میں دھمکانے لگا۔ مگر جلد ہی خود بھی سر جھکا کر خاموش ہو گیا۔ بچے بہت سہم گئے تھے۔ ایک نے خالی نظریں اپنے پاؤں پر اور دوسرے نے شیشے پرجمارکھی تھیں مگر واضح تھا کہ وہ شیشہ ہی دیکھ رہا تھا اس سے باہر نہیں۔
کچھ دیر بعد بھیرہ سٹاپ اوور آ گیا۔ میں نے واش روم سے باہر آ کر چائے لی اور پارکنگ کی طرف بڑھا۔ ایک کونے میں باپ اپنے مجرم بنے کھڑے بیٹوں کو ڈانٹنے میں مگن تھا۔ میں نے قریب جا کر بسکٹ کا پیکٹ آفر کیا تو شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔
میں نے اصرار کے ساتھ پیکٹ بچوں کو پکڑایا اور ان کے والد کو ساتھ لے کر ایک طرف چل پڑا۔ پہلے تو وہ کچھ بولنے کے موڈ میں ہی نہ تھا، مگر یکدم پھٹ پڑا "تسی دسو جناب میرا کی قصور اے، میں کی غلط کیتا ------  میں واقعی افورڈ نئیں کر سکدا پر منڈیاں دی ضد سی کہ مامے دی شادی تے اسی ڈیوو تے جانا اے -----  میں مجبور بندا، میرے کول نئیں ہیگے اینے پیہے -----  اک دوست ڈیوو تے ہیلپر ہیگا  اے۔ اوہنے کہیا، کوئی نئیں توں دو سیٹاں تے چلا جائیں، تینوں کوئی کجھ نئیں کہندا"۔ میں نے اسے تھپکی دی تو تھوڑا نرم ہو کر بولا "بچے نیں، شرارتاں کردے نیں تے تھوڑے بہت دھکے لگ ای جاندے نیں" پھر تقریباً روہانسا ہو کر بولا "اوس بندے نے تے مینوں میرے منڈیاں دے اگے ذلیل کر دتا ----- صرف ایس لئی کہ میں اک سیٹ تے دو بچے بٹھان دا جرم کر دتا اے۔"
بچوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا "مینوں پتہ اے دونویں ڈر گئے نیں پر ایناں دے ذہن اچ اے گل بیہہ گئی اے کہ ساڈا پیو اینج ای ذلیل ہوندا رہندا اے ------ حالانکہ خدا شاہد اے جناب میں کدی اپنے گھر دیاں نوں تتی ہوا نئیں لگن دتی----- بھانویں دو نوکریاں کر کے خرچہ  پورا کراں، ایناں نوں کمی نئیں ہون دتی ------- اج ڈیوو دے شوق نے مینوں اپنے منڈیاں اگے ذلیل کرا دتا اے"
خیر اسے سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور ہم بس کی طرف بڑھے، اپنے ہم نشین نوجوان سے درخواست کر کے سیٹوں کی ترتیب تبدیل کرائی اور باقی سفر ہم نے بچوں اور انکے والد کی جگہ پر گزارا۔ جبکہ دوسری طرف وہ نسبتاً خاموشی سے بیٹھے رہے۔
پنڈی پہنچے تو بارش ہو رہی تھی۔ بیگم گاڑی لے کر موجود تھیں۔ میں نے ڈرائیونگ سنبھالی اور ہم گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ بارش تیز ہو گئی تھی، جی 13 والے گول چکر پر پہنچے تو حسب معمول کافی رش تھا۔ گاڑیاں رینگتے ہوئے کشمیر ہائی وے پر برق رفتاری کو بے قرار تھیں۔ عین بیرئیرز کے درمیان میری گاڑی کے آگے ایک موٹرسائیکل رک گئی۔ بائیک پر ایک مرد اور ایک عورت سوار تھے، عورت نے کوئی بچہ کمبل میں لپیٹا ہوا تھا جبکہ آگے بھی ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ مرد نے بائیک کو ککس مارنی شروع کیں۔ ایک ---- دو --- تین ---- میں نے ہلکا سا ہارن بجایا۔ بائیک سوار نے ہاتھ  سے ایک منٹ کا اشارہ کیا اور پھر ککس مارنے لگا---- ایک --- دو----  تین----
اسی اثنا میں میرے پیچھے سے بھی ہارن بجا۔ اب میں نے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا۔ عورت نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر مرد کے کان  میں کچھ کہا۔ بائیک سوار نےموٹر سائیکل کو زور لگا کر بیرئر سے آگے نکالا اور دائیں جانب رک گیا۔ میں نے اسکے قریب لے جا کر شیشہ نیچے کیا اور بولا "اوئے لے جا ایس کھٹارے نوں کتھے کباڑیاں کول -----  کیوں باقی ٹریفک دی آتما رول رہیا ایں----"
مرد نے تو ہاتھ سے مجھے جانے کا اشارہ کیا جبکہ اس کی بچی میری استہزائیہ ہنسی اور باپ کے بےچارگی والے غصے کو خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے شیشہ اوپر کیا اور گاڑی بھیگتی کشمیر ہائی وے پر چڑھا کر بیگم سے باتیں شروع کر دیں

یہ تحریر سب سے پہلے چائے خانہ پر شائع کی گئی۔